![]() |
حفیظ الامین فائل فوٹو |
آہ !میرے مَلنگ ،آپ کی مَلنگی ایک حُسن ،ایک رونق ایک زینت تھی ۔نام حفیظ الامین اور اپنے نام کی طرح خوبرو تھے ۔معصوم عاداتیں تھیں ،چھوٹے بڑے ہر شعبے ہر ذہنیت کے لوگ آپ کے دلدادہ تھے ۔ہر خاص و عام کے لبوں پہ آپ کا نام (حفیظ ) محبت و اپناٸیت کا ورت بن چکا تھا ۔
ذہنی لحاظ سے آپ مخبوط ،شوریدہ تھے ۔لیکن جس طور سے دوسروں کو ہمہ تن محظوظ رکھتے تھے ۔اس کی ثانی کوٸی دانا اور عاقل نہیں ہو سکتا ۔
ستم ظرفی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے طبقے کو محضِ تماش اور احمق سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت اور خالق ان کو کاٸنات کا حسن اور زندہ دلی کا پیکار تراشتا ہے ۔جب بھی ان کا نزول ہوتا وہاں مسکراہٹ بکھیر دیتے ۔
نام حفیظ لیکن قُل کی رَٹ لگاتے تو یوں لگتا جیسے ابھی ابھی مینا بولنا سیکھ لیا ہے ۔
بڑے قد کاٹ کے ،نیلی آنکھیں،داڑھی (اپنی مرضی سے بناٸی ہوٸی )۔کبھی اس داڑھی کو پورا منڈواتے اور کبھی مونچھیں بڑھاتے اور پورا اُسترے سے منڈی کردیتے ۔مونچھ منڈا کہہ کر پکارتے تو پنسل سے پھر مونچھیں بناتے ۔
سَر کے بال ہمیشہ پُر پیچ اور بینا تیل کے بکھیرے ہوتے عموماً ٹوپی (کھپوڑ) پہنے ہوتے تھے ۔
کھپوڑ بھی بینا سُلجھے دلکش انداز میں سر کے ایک کونے میں رکھا ہوتا ۔
کپڑوں کا حال یوں ہوتا کہ قیس کی گداٸی کے پوشاک جیسے اور فرہاد کی کوہ کنی کی لباس ہوں۔کبھی تلبیس زیبِ تن کرتے ۔ایک دفعہ اپنے ننھیال پرواک سنوغر میں گٸے ہوۓ تھے کہ گھر میں کوٸی سادہ لوح شخص کسی کام کے واسطے داخل ہوۓ ۔موصوف پولیس کی وردی پہنے ہوۓ تھے ۔فوراً اس شخص کو بھاری آواز سے ”آپ کون ہے؟ رُکو میں آپ کی تلاشی لیتا ہوں )۔کے کلمے بلند کٸے اور اس کو دیر تک کھڑے رہنے کو کہا ۔آخر عزیزوں کی تنبیہ پر اپنی حرکت سے باز رہا ۔جاڑے کے اوقات تین بنیان نیچے ان کے اوپر دو دو قمیض اور ان کے اوپر جتنی مرضی اتنے سوٸٹر اور پھر واسکٹ ،لمبا کوٹ پہن کر ایسے تیز چلتے گویا ایک بھی کپڑا نہ پہنا ہوا ۔ نسوار کے شاٸق تھے ،اپنے پسند کے اقارب اور عزیزوں سے نسوار طلب کرتے ۔ایک ہی وقت میں لبوں کے نیچے نسوار کی چار گولیاں لگاتے اور گفتگو کے دوران منہ گول ہو جاتا تو نسوار کی ایک گولی تھوکتے ۔مجھ سے اکثر نسوار اور پتلون طلب کرتے اور لمبی صحت ،اچھی نوکری کی دعا دیتے ۔
علی الصبح اٹھتے ،گھر کے صحن میں بلند آواز لگاتے پھر ہمارے گھروں کی جانب رخ کرتے ۔اگر دروازہ ابھی نہ کھلا ہو تو بلند آواز کے ساتھ دروازے کو زور سے لات مارتے یا کنڈی خود کھل جاتی یا اکر دروازہ کھل دیا جاتا ۔اور اندر داخل ہوتے ہی ناشتے کا پوچھتے تو کھڑے کھڑے چاۓ کی پیالی باٸیں ہاتھ میں اور روٹی دوسرے ہاتھ میں لیتے ہوۓ پانچ نوالے اور تین گھونٹ نوشِ لب فرماتے اور پھر باتیں کرتے دروازے سے رخصت ہو جاتے ۔
سب کے لیے میٹھے الفاظ استعال کرتے ،بھاٸی ،بہن ،انکل اور انٹی کہ کر پکارتے ۔فوجی بننے کا بےحد شوق تھا ۔ہمیشہ کہہ دیتے کہ میں فوجی بنوں گا اور فسادیوں کو مٹا دوں گا ۔
الگ کمرہ تھا کمرے میں تمام چیزیں بکھری پڑی ہوتیں۔کپڑے سمیت کِھولنے تک وہاں جمع ہوتے ۔اور تین چار گھٹڑیاں کمرے کے مختلف کونوں میں نمایاں ہوتیں۔ خراب ٹیپ ریکارڈ ،موباٸل ،شیشیاں ،گھڑی،کنگھیاں وغیرہ اس کے کمرے کی زینت تھیں۔
پورا محلہ اُس کی موجودگی میں کِھل اُٹھتا تھا ۔سب اس کے دوست تھے ۔ہر جگہے میں موجود ہوتے ۔اکثر پولو گراٶنڈ اور کرکٹ گراٶنڈ پچھیلی میں نزول فرماتے ۔کرکٹ میچ کے دوران ہی سیدھا گراٶنڈ کے درمیان سے گزرتے ۔چاروں طرف ”حفیظ “ کی صداٸیں بلند ہوتیں ۔غصے سے دوچار گالی سناتے ہوۓ میدان سے باہر نکلتے ۔ہر کوٸی اپنے پاس بُلاتے مگر جس کے پاس بیٹھنے کا من کرتا وہاں دراز ہوتے ۔
وہ ہر محفل ،ہر تقریب کا حسن تھا ،جہاں بھی جاتے وہاں مزہ دوبالا ہوجاتا ۔رشتے میں میرے چاچا تھے ،بسا اوقات مجھے کہتے کہ ”میں آپ کے ابا کا بھاٸی ہوں ،آپ میرے بھتیجے ہیں “۔ اکثر گھر کے باہر ہوتے جوں ہی مجھے دیکھ لیتے تو ”اے سُہیل“ کہ کر پُکارتے ۔
زیادہ تر ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھوتے ۔ہمیشہ چھوٹے بچوں جیسی حرکات اور عادتیں اپناتے ۔ جلدی غصہ ہوجاتے اور پھر پل بھر میں نام لیکر پکارتے اور ہنستے ہوۓ گفتگو کرتے ۔
میں لب بستہ ہوں کہ اس کو جانے میں اتنی کیا جلدی تھی ۔اس کو تو طویل علالت کے بعد سب کو وہم میں ڈالتے ہوۓ جانا تھا ۔ہم سے دواٸیاں طلب کرتے ،جوس مانگتے ،پتلون ،موباٸل ،نسوار،
چاۓ مانگتے ۔کم ازکم دو دن تو لگتے۔
بہرحال موت حتمی اور اٹل ہے ۔ہر ایک کی اپنی نوعیت کی موت ہوتی ہے ۔کوٸی حادثے میں مرتا ہے تو کوٸی بیماری میں اور کوٸی یوں بچھڑتا ہے ،کہ لاش کو دریا سے نکال کر گھر لاٸی جاتی ہے ۔
اُس کی بے بسی کی اِس موت پہ بہت ترس آتا ہے ۔کہ اس ٹھنڈ میں دریا کی بے رخم لہروں سے لڑتے ہوۓ تنکے کا سہارا بننا مجھے تڑپاتا ہے ،مجھے تتر بتر کر دیتا ہے۔
وہ سب کا دوست اور سارٕے اس کے دوست تھے ۔تمام دوست احباب نے ان کا ہر جگہے میں خیال رکھا ،اُس کو پیار اور محبت دیں ۔
آپ تمام خوش رہیں ،تندرست رہیں ۔
یہ دسمبر ہم پہ تو گران گزرا ۔
✒محمد سہیل ساحِر
0 Comments