توہم پرستی
توہم پرستی جسے انگریزی میں
Superstition یا paranormal
کہا جاتا ہے کا مطلب خوف یا جہالت کی وجہ سے غیر عقلی عقائد پر یقین رکھنا ہے۔
کسی بات کے بارے میں بے بنیاد خوف، اندیشے اور خیال پر یقین کرلینے کو توہم پرستی کہا جاتا ہے۔توہم پرستی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی زندگی کے ارتقاء کی۔ قدیم زمانے کے غیر مہذب اور وحشی انسان کے لئے وسیع کائنات کی ہر چیز پراسرار تھی۔ موسم کی تبدیلیاں سورج اور ستاروں کی گردش، زلزلے، آندھیاں، دریا، سمندر، وحشی اور خونخوار جانور یہ سب چیزیں اس کی عقل اور فہم سے بالاتر تھیں۔ ان کو تنہا ان سب کا مقابلہ کرنا تھا وہ تنہا بھی تھا اور ان سب سے کمزور بھی۔ اس کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اور وہ ان سے کس طرح مقابلہ کرے۔
اس لیے وہ ہر طاقتور چیز سے خوف کھانے لگا۔ خوف نے اسے ان کی پوجا کرنے پر مجبور کیا۔ وہ اپنے گردوپیش کی چیزوں کی اصلیت سے لاعلم تھا اس لئے اس کے دماغ نے خیالی عقیدے تراشے اور وہم کی ابتدا ہوگئی۔
سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ عہد جہالت کے بہت سے توہمات ختم ہوتے گئے۔ انسان اپنے ماحول کو بہتر طریقے سے جان گیا بلکہ بہت سی قدرتی قوتوں کو بھی اس نے اپنے قابو میں کر لیا۔ لیکن پسماندہ ملکوں میں جہاں علم کی روشنی ابھی ٹھیک سے نہیں پھیل سکی ہے، لوگ بے بنیاد توہمات میں اب بھی یقین کرتے ہیں۔زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ ان کی توہمات کی شکلیں بھی بدلی ہیں۔ اب یہ پتہ لگانا بھی مشکل ہوتا ہے کہ کسی خاص وہم کی ابتدا کیوں کر اور کب ہوئی؟
توہم پرستی کی ہزاروں شکلیں ہیں۔ ہر ملک اور طبقے کے لوگوں میں مختلف قسم کے توہمات پائے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی چیز کے بارے میں دو مختلف مقامات پر بالکل مختلف عقیدے پائے جاتے ہیں ایک چیز جو کہ ایک مقام پر مقدس سمجھی جاتی ہے۔ دوسری جگہ منحوس اور بری مانی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر عیسائیوں میں جمعہ کے دن کام شروع کرنا منحوس سمجھا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کے نزدیک یہ بہت مبارک دن ھوتا ھے۔
ہندوستانی عقیدے کے مطابق الو کا کسی مقام پر آواز لگانا تباہی اور موت کی علامت ہے لیکن انگریز الو کو فلسفی پرندہ کہتے ہیں اور اچھی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں توہمات کی شکلیں بدلی ہوئی ملتی ہیں۔
یوں تو ہمارے ملک پاکستان میں بھی طرح طرح کے عقیدے اور شگون پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے خاص یہ ہیں۔ راہ چلتے ہوے بلی کا راستہ کاٹنا اس بات کی علامت ہے کہ ضرور کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آئے گا۔ سفر کے لئے روانہ ہوتے وقت چھینک آجائے تو سفر نا مبارک ثابت ہوگا۔ شکار جاتے وقت کوئی چاقو کا نام لے لے تو شکار ہاتھ نہیں آتا۔ صبح صبح کسی کانے یا بیوہ کی شکل نظر آجائے تو دن خراب گزرے گا،
بالکل پسماندہ اور جاھل لوگوں کے توہمات کی فہرست اور بھی طویل ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا ان کی زندگی کی ہر چیز توہمات سے وابستہ ہے۔
جادو، ٹونا، ٹونکا، گنڈے تعویذ، بھوت پریت ان چیزوں پر ان کا اتنا ہی پختہ عقیدہ ہوتا ہے جتنا ہم اور آپ رات کے بعد دن آنے پر رکھتے ہیں۔اگرچہ تعلیم یافتہ لوگ ان توہمات میں یقین نہیں رکھتے پھر بھی یہ وہم ہمارے دماغ میں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ اگر ان علاقوں میں سے کوئی علامت پیش آجائے تو ایک قسم کی بے چینی ضرور ہوتی ہے کہ ایسا نہ ہوتا تو اچھا تھا۔
توہمات کے بے شمار نقصانات ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ انسان توہمات کو حقیقت مان کر بیٹھ جائے تو اصل حقیقت جاننے کے لیے کوشش چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ نئی ایجادات اور انکشافات کے لیے جدوجہد نہیں کرتا۔
پس انسانی ترقی میں توہمات نے جتنی رکاوٹیں ڈالی ہیں وہ شاید کسی دوسری چیز نے نہیں ڈالی۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ سائنس اور فلسفے کے انکشافات اور ایجادات کرنے والوں کو توہمات نے جادو گر ٹھہرایا اور جہالت نے آگ میں جھونک دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔
منطق کبھی بھی کسی رائے کو تبدیل نہیں کرسکتی ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ آج ان توہمات کو جدید سائنس نے غلط ثابت کردیا ہے اور ہمارا مذہب بھی ان عقائد کا سختی سےانکار کرتا ہے اس کے باوجود توہم پرستی ہماری روزمرہ کی زندگی کا ایک بنیادی حصہ بنی ہوئی ہے ، اور برصغیر پاک و ہند کے باشندے ان توہمات کے اثرات پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں جن کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوتی
ہمارے چترال کے مختلف میں بھی مختلف قسم کے توہمات پائے جاتے ہیں اُن میں سے چند ایک پر یہاں اکتفا کیا جاتا ہے ۔
اگر کسی کا دائیں کان گرم ہو جائے تو کوئی اسکی تعریف کر رہا ہے۔ اگر بائیں کان میں گرمی محسوس کرے تو کوئی اس کی بُرائی بیاں کر رہا ہے ۔
اگر کسی کا دایاں آنکھ ہلے تو اُسکے والد کا کوئی رشتہ دار آرہا ہے اوراگر بائیں آنکھ ہلے تو اسکی والدہ کا کوئی رشتہ دار اُس کے ہاں آرہا ہے ۔
اگر سفر پر جاتے ہوئے لومڑی تمہارے سامنے آئے تو کامیابی کی علامت ہے ۔
اگر شکار کو جاتے ہوئے خرگوش سامنے آئے تو شکاری نا کام لوٹے گا ۔
اگر کوئی سڑک پر پیشاب کرے گا تو دھواں اُس کے منہ میں جائے گا۔
اگر آگ جلتے ہوئے آواز کرے تو اس گھر میں جھگڑا ہو گا۔
اگر کتا رونے کی آواز نکالے تو یہ بد شگونی ہے ۔
بیٹی کی رخصتی کے وقت اُسکی ماں اپنے گھر کے دروازے سے باہر نہ نکلے ورنہ بیٹی سسرال میں خوش نہیں رھیگی ۔
اگر بچہ جھاڑو دینے لگے تو مہمان آینگے۔
اگر دائیں ہتھیلی میں کھجلی ہو تو کسی سے کچھ ملے گا اگر بائیں ہاتھیلی میں ہو تو کسی کو کچھ دے گا۔
اگر مردے کی ایک آنکھ کھلی رہ جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مرتے وقت وہ کسی کا انتظار کر رہا تھا۔
اگر کہیں مردہ کا جسم زمین سے باہر رہ جائے تو مسلسل بارش ہوگی۔
( اقرارالدین خسرو)
0 Comments