ایک مولوی صاحب ایک مقامی مسجد میں جمعہ کی نماز سے پہلےتقریر کررہے تھے۔ مولوی صاحب بڑے رنگین مزاج بلکہ رنگیلے انسان تھے۔ ان کی بے باک تقریروں سے مسجد کی پچھلی صفوں میں بیٹھے نوجوان خوب مزے لیتے اور اگلی صفوں کے بزرگ ان کے انداز خطابت کی وجہ سےان کو کچھ ذیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ اس روز جناب کا موضوع تھا " جنتی اور جنت کی حوریں" کچھ یوں گویا ہوۓ " میری یہ والی تقریر پچھلی والی تقریر کا تسلسل ہئے۔ عالم برزخ کے بعد جب جنتی کو اس کی جنت میں داخل کیا جاۓ گا تو وہ ستر حوروں کو اپنے انتظار میں پاۓ گا۔ نرم و نازک بدن والی، نشیلی آنکھوں والی، لچیلی حرکتوں والی مرحبا مرحبا کہتی ہوئی آئیں گی اور کہیں گی ہم جانے کتنے لاکھوں سالوں سے آپ کی آمد کے منتظر ہیں۔ جنتی ہر حور کو دیکھتا ہئے اور حیران ہوتا ہئے ان کے زرق برق جنت کے لباس دیکھ کر، ان کی دل نشین آنکھیں دیکھ کر، ان کے لچیلے بدن دیکھ کر ۔۔۔۔ ہر ایک کی اپنی ادا ہئے۔ ہر ایک کی بل کھاتی جوانی ہئے۔ بولتی ہیں تو ہونٹوں سے پھول جھڑتے ہیں۔ ذرا ہل جائیں تو خوشبو بکھیریں۔ ان کے لباس۔۔۔ماشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پل پل میں رنگ بدلیں۔ اب جنتی اپنی قسمت پر نازاں ہئے۔ شکر بجا لانے کیلئے بار بار آسمان کی طرف دیکھتا ہئے اور حوروں پہ نظر جماتا ہئے"


اتنے میں مولانا کو جانے کیا سوجھتا ہئے اسے انہی حوروں کے پاس اس کی اپنی بیوی کھڑی نظر آتی ہئے گویا اس کو گمان ہوتا ہئے کہ وہ خود جنت میں ان مراحل سے گزر رہا ہئے۔ اور اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہو کر اسے دنیاوالی کے نام سے پکارتا ہئے " اوئے دنیا والی، ارے او چڑیل ! تم  یہاں کیسے؟ تم نے دنیا میں میرا جینا حرام کیا تھا، میں نے جو سوچا تھا تمہیں نہ  لے چلوں پھر کیوں آئی ہو ؟


اب دنیا والی جواب دیتی ہئے، " تم نے جو سوچا سو سوچا، پر مجھے آنی تھی اور آئی۔ میں نے تمہارے گونگے بہرے پالے، میں نے تیرے گھر کی نگرانی کی، بھیڑ بکریاں پالیں، دودھ کی بالائی تمہیں کھلائی، سر پہ لاد کے لکڑیاں لائیں۔ اور آج تم ان لڑکیوں کی جھرمٹ میں لڑکے بنے ہو۔ اس بات پر حوروں کا پارہ بھی چڑھتا ہئے اور دنیا والی سے مخاطب ہو کے کہتی ہیں، " آوے ! دنیا والی یہ جنتی اور تم۔ پھٹی ایڑیاں، چہرے پہ سلوٹیں، ہاتھ پتھر کی سلیں اور دعویٰ اس کا جس کے ہم منتظر !!!

اب جنتی بھی مخمسے کا شکار ہوکر آسمان کی طرف دیکھتا ہئے اور فورأ دنیا والی پر نظریں جماتا ہئے تو متحیر ہوکر رہتا ہئے۔ دنیا والی تو حوروں کی بھی حور تھی۔ اس کی قاتل مسکراہٹ، دل کے اندر سے دکھائی دیتی اس کی محبت، اس کی چمکتی آنکھیں، بل کھاتی زلفیں اور اس کی دلفریب خوشبو۔۔۔۔  ۔۔۔۔ جنتی دو پل سوچنے کے بعد اپنا آخری فیصلہ سناتا ہئے۔ ' اے میری جنت کی بیویو، اے حورو تم نے خدا کے حکم سے میرا لاکھوں سال انتظار کیا۔ تمہارا شکریہ۔ اے میری دنیا والی ! تم نے دنیا میں میرا ساتھ دیا، خود پر مجھ کو ترجیح دی، اپنے اور اپنی سوتن کے بچوں میں کوئی فرق نہ کی۔ خود کو مجھ تک محدود رکھا۔ یہی وجہ ہئے تم بھی جنت میں میری ہی رہوگی۔ پر میری جنت والی حورو اور دنیا والی حور، غور سے سنو ۔ یہ جنت ہئے یہاں لڑ بھڑ کے نہیں رہتے۔ یہاں خوشی ہی خوشی ہئے۔ یہاں گاۓ بکریاں پالی نہیں جاتیں۔ وہ سامنے والا ہیرے جواہرات کا محل ہمارا ہئے وہ ساتھ والی تین نہریں دودھ، شہد اور میٹھے پانی کی ہیں۔ اگر کسی کا کچھ بھی کھانے کو من کرے تو بس تصور کرو اور حسب منشا طعام حاضر۔ یہاں کرنے کو محبت ہئے۔ اور ہاں میں با اصول آدمی ہوں یہ میری دنیا والی حور بڑی تجربہ کار اور منتظم ہئے۔ لہزا میں ان کو اپنا مشیر اور آپ جنت والی حوروں پر مانیٹر مقرر کرتا ہوں۔ مجھے امید ہئے تم اس کی اطاعت کرو گی۔ صدا آئی "آمنا و صدقنا"


مولانا صاحب پتہ نہیں اور کیا کیا کہتے اگلی صف میں بیٹھے کسی بزرگ نے دیوار پر لگی گھڑیال کی طرف دیکھ کہا، " مولانا صاحب، نماز کا ٹائم ہو چکا"۔ یوں مولانا صاحب ممبر سے نیچے اترے۔