سیاسی رنگبازیاں



ایک عام سی کہاوت ہئے کہ سیاستدانوں کو اپنی سیاست کے داؤ پیچ آزماتے ہوۓ کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ نہ اپنوں کی نہ ووٹرز کی اور کبھی کبھی اپنی ذات کی بھی نہیں۔ پاکستان میں سیاسی مداریوں کی رنگبازیوں  اور ان کے جمبوروں کی قلابازیوں سے ہم جیسے جنونیوں کا سامنا ہر دور میں ہوتا رہا ہئے۔ سیاسی بازیگروں کے زرخرید کارندے اپنے جوش خطابت اور عیارانہ داؤ پیچ کے ذریعے ظلم کی چکی میں پسے اپنی قسمت سے نالان اور آگے سے نان نفقے کیلئے پریشان نوجوانوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ کوئی جان سے گیا، کسی کا سر پھٹا، کسی کی دنیا اجڑ ی، کوئی داخل زندان ہوا اور پیشیاں بھگتتے بھگتتے جوانی لٹادی اور آگے کے ماہر سٹے باز ان جوشیلے جوانوں کی قربانیوں کو چوراہوں اور سیاست کے ایوانوں میں بیچ کر اپنی تجوریاں بھرتے اور محلات کی فصیلیں بلند کرتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ عشروں سے پاکستان میں جاری ہئے۔ چند سال قبل پڑوسی ملک میں شہدا کے ورثاء میں امداد تقسیم کی جارہی تھی شہید کی بیوہ ماں نے امدادی رقم دینے والے صاحب سے ایک عجیب سوال کیا، " محترم یہ فرمائیے کہ فرانس اچھی جگہ ہئے یا جنت" صاحب موصوف نے حسب توقع ذرا ترش لہجے میں جواب دیا کہ بھلا جنت کا مقابلہ فرانس سے کیوں کر ممکن ہئے ؟ اس ذو معنی جواب پر بڑھیا نے معصومانہ انداز اپناتے ہوۓ کہا میرا بیٹا تو شہید ہوا ہئے اور آپ کا صاحب زادہ تو ماشاءاللہ فرانس میں ہئے۔


سیاسی بیانئے، سیاسی چرب زبانیاں، سیاسی چؤل بازیاں کتنوں کی جانیں لے چکیں اور کتنے ایسے بد قسمت ہوں گے جو ان ریلیوں، احتجاجی جلوسوں، مذہبی اشتعال انگیزیوں اور نام نہاد مانوں اور نہ مانوں والے دھرنوں کا حصہ بن کر مخالف سمت سے لاٹھیوں، گولیوں اور دوسرے جان لیوا اوزاروں اور ہتھیاروں کا نشانہ بنیں گے۔


اس قسم کے دھنگے اور فسادات فرانس، برطانیہ اور امریکہ جیسے انسانی حقوق کے پہلوانوں کے ملک میں بھی گاہے بگاہے وقوع پزیر ہوتے رہتے ہیں اور وہاں پر ذرا توقف کے بعد جذباتی نوجوان کم و بیش ہمارے والے حالات سے دوچار ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے اس ملک خداداد میں سیاست دانوں کی طرف سے یہ مہربانیاں آۓ روز ہوتی رہتی ہیں۔ خاص کر گزشتہ دو سالوں کے دوران تاش کے باون کے باون پتے چل چکے ہیں، بازیاں پلٹ دی گئی ہیں، چھوٹے بڑے گیم ڈال دئے گئے ہیں، منجھیاں ٹھوکی گئی ہیں۔ انقلاب، جہاد اور شہادت کی تاویلیں بیاں کی گئی ہیں۔ مرکز نگاہ خیبر پختونخواہ اور یہاں کے جوانوں کی بہادری اور جذبۂ قربانی کو بنایا گیا ہئے۔ دونوں اطراف سے ہٹ دھرمی اور سخت گیری کا مظاہرہ کیا جارہا ہئے۔ ظاہر ہئے ریاست کی طاقت کے سامنے جذباتی نعرے، غلیلیں اور ایک آدھ سخت گیروں کے اللے اور تللے اور بھڑکیں کام نہیں کرتیں اور معاملہ جوں کا توں ہئے۔ حاصل کچھ نہیں ہوا۔ ہاں نقصان ضرور ہوا ہئے۔ املاک کا، پاکستان کی امیج کا، امن و امان پر مامور پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے جوانوں کی جانوں کا، پاکستان کے شہریوں کی جانوں اور اثاثوں کا ۔۔۔۔ ٹروپس کی ڈپلائمنٹ اور ٹرانسپورٹیشن کے مد اربوں روپوں اور ہمارے صوبے کی ڈگمگاتی معیشیت کا۔ ان سب کے علاؤہ براہ راست پسا تو غریب سیاسی کارکن، گولیوں کا نشانہ بنے۔ زخمی ہوۓ۔ گرفتار ہؤۓ اور لاپتہ ہوے۔ وہی کفیل تھے اپنے گھر بار کے: وہی اپنے والدیں کے بڑھاپے کا سہارا اپنے بچوں کے سرپرست اور کسی کے سر کے تاج تھے۔ آج ان کی خبر گیری والا کوئی نہیں ہئے۔ ان کے بچوں کے سروں پر دست شفقت رکھنے والا کوئی نہیں ہئے۔ بیویاں اپنے خاوندوں اور والدین اپنی اولادوں کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس رہے ہیں۔ آج نو مئی کے دھنگوں میں شامل پچیس افراد کو قید سخت کی سزائیں سنائی گئی ہیں اور ساٹھ افراد سزا سننے کا انتظار کررہے ہیں۔ چھبیس اور ستائیس نومبر والے ہزاروں افراد کا نمبر لگا ہوا ہئے۔ ان کی داد رسی اور اشک شوئی کو بھی کوئی نہیں آۓگا۔


آج بھی کہا جارہا ہئے۔ یہ آوے وہ آوے، یہ ہوگا وہ ہوگا۔ آوے آوے باہر آوے۔ ایسی کی تیسی پھیرے۔ کچھ نہیں ہوگا۔ امریکی گرین کارڈ ہولڈرز نام نہاد صحافیوں نے ڈالر کمانے کی خاطر ہمارے ملک میں کہرام مچایا ہوا ہئے۔ بھائی کو بھائی سے لڑایا جارہا ہئے،  1965 کی جنگ کے بعد ہمارے ہی اتحادیوں اور سر پرستوں نے ہم پر پابندیاں لگائیں، 1972, 1977, 1998, 2012 اور 2018 کو ہم نے پابندیوں کا سامنا کیا۔ ہم نے ہر رنگ کی لسٹیں دیکھیں اور ہم جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک سے آج بھی مضبوط ہیں۔ وہ جو وہاں سے بونگیاں مار رہے ہیں ان کی اوقات سینکشنز والی نہیں ہیں۔ 


آخر میں میں یہیں کہوں گا کہ ہم جیسے مڈل اور لوئر مڈل کلاس لوگوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاندان کی کفالت کی جو ذمہ داریاں ہمیں دی ہیں، پہلے وہ پوری کریں۔ اپنی جانوں کی حفاظت کریں۔ جب تک جان ہئے ہم اپنی ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ ہمیں کچھ ہوتا ہئے تو ہمارے زیر کفالت بچوں اور بوڑھے والدین کا کیا ہوگا۔ رنگ بازوں بچتے رہئے۔