چھوٹے موٹے رویوں کے دلچسپ پہلو
ہمارے ارد گرد شور ہوتا ہے اور دماغ محشرِ خیال۔ روزمرہ کے معمولات اور معاملات ہوں یا اپنے آس پاس لوگوں کے رویے اور انداز، ہم ان سے اک گونہ غافل رہتے ہیں۔ آج کی بات ہے۔ ایک سکول ہے جہاں کم و بیش سب نے سائنو ٹرانس نامی جزیرے میں کوئی گھر لیا ہے اور روزانہ آمدن ہوتی ہے۔ دو چار کو چھوڑ کر، ان میں عامی، عالم، سب شامل ہیں۔ آج ایک مولانا نے ہمیں اپنی سرمایہ کاری اور اس سے نکلتے منافع کے بارے میں بتایا اور لہو گرمایا۔ ہمیں یہ چیز بار بار کھٹکتی رہی ہے کہ اس دقیانوس مقام پر سکول کے مولانا اساتذہ کرام لڑکیوں کی تعلیم کے سخت مخالف رہے ہیں اور ہیں۔ کوئی طالب علم ننگے سر نماز پڑھ لے تو طالب علم سے پہلے استاد کی نماز فوت ہو جاتی ہوتی۔ دیگر اور بھی بڑی مثالیں ہیں جہاں یہ خلافِ شرع تھوکتے بھی نہیں مگر جہاں چوکتے نہیں، وہ سائنوٹرانس ہے۔ مجھے اینٹول لیون کی ایک بات یاد آئی، کہتا ہے کہ طالب آن سوائے امریکی ڈالروں کے، نہ اس کے نظریے کو مانتے ہیں، نہ ان کے کلچر کو شرفِ قبولیت بخشتے ہیں۔ اس پر کیا اعتراض کہ یہاں سے نکلنے والی کمائی حلال ہے، یا حرام۔ اعتراض اس پر ہے کہ اس ادارے سے لڑکیاں پڑھ لکھ کر نکلیں گی تو وہ "حرامی" کیوں ہوں گی۔ اپنے لیے اتنی سی گنجائش نکال دی ہے تو ان کو بھی کچھ رعایت دیجئے۔
بات کہیں اور جا نکلی۔ ہمارے انداز اور رویوں کی بات کر رہا تھا اور پھر کھٹکنے والی بات ہوگئی۔مولانا کو مثال کے طور پر لیا تھا۔ مولانا نے سائنوٹرانس کے حوالے سے ٹیکنکل گفتگو کی اور ان کے علم پر رشک آیا۔ شریعت کو نہ ہم نے چھیڑا۔ نہ انہوں نے ہاتھ لگایا۔ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تو مولانا نے اسی چھوٹے سے کمرے میں جائے نماز بچھا دی۔ نماز پڑھ کر دعا مانگی اور جائے نماز سمیٹتے ہوئے کہا کہ سائنوٹران کے حوالے سے اکشے کمار کی ایک بات یاد آ گئی۔ اس نے فلم کا نام لیا اور وہ ڈائلاگ بولا اور پھر اس کو سائنوٹرانس سے جوڑا۔ انہوں نے اپنی بات ختم کرتے کرتے سائڈ جیپ سے تسبیحِ صد دانہ نکال لی تھی۔ (انگلی میں وہ انگوٹھی نما تسبیح پہلے سے موجود تھی)۔ مجھے یہ مولانا نیکی اور برائی، ایمان اور بے ایمانی کا ایک خوب صورت سا گلدستہ نظر آیا۔ پیار آیا۔ ولے۔ ان کی پر اثر تقریر کا اثر یہ ہوا کہ ہم سمیت ساتھ بیٹھے بہت ساروں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ڈالے۔ تقریر کی لذت اور لطف بے معنی سی چیزیں ہیں۔ تقریر وہ جس کا کوئی آؤٹ کم آئے، سود مند ہو اور مولانا کو ریفریل لنک کی وجہ سے کافی سود مل گیا۔
کل ایک ملتا جلتا ایک اور دلچسپ رویہ دیکھا۔ ہمارے ایک بڑے ہیں۔ باپ، چچا، بھائی، سالا، بہنوئی، کچھ بھی خیال کر لو۔ مزے کی شے ہیں۔ رندوں کے رند اور حضرات کے ساتھ ملا ہوا۔ کل کہیں سے ان کے ساتھ ہم سفری تھی۔ قدرت نے سو خامیوں کے ساتھ یہ خوبی بخشی ہے کہ حد درجہ کنجوس ہے۔ اس لیے اچھا خاصا صاحبِ ثروت ہے۔ پھونکنے کا شوقین ہے مگر کنجوسی اجازت نہیں دیتی۔ اب ہمارا پھونکنا تو ان کے سامنے ممنوعہ ٹہرا کہ بڑے ہیں، راستے میں مجھ سے کہنے لگا کہ سخت سر میں درد ہے۔ میں سمجھ کر خاموش ہو گیا۔ آگے بڑھے تو کہنے لگا کوئی دکان بھی نظر نہیں آرہی۔ ایک دانہ خریدنا ہے۔ اب میں نے احترام کے ساتھ تھوڑی سی بے تکلفی سے کام لے کر ایک دانہ سامنے رکھ دیا اور نظریں دوسری طرف موڑ دیں۔ ہمیں ایک نظر دیکھا کہ اٹھاتے ہوئے دیکھ تو نہیں رہا اور پھر جھٹ سے لگا دی۔
کچھ آگے آئے تو سخت بور ہو رہے تھے۔ میں نے کہا کہ گاڑی میں میوزک ڈیوائس ہے تو کچھ لگا دیں۔ یہ میوزک کا خود بھی شوقین ہے مگر اس وقت سنتا ہے جب کوئی دوسرا نہ سنتا ہو۔ میں نے اپنے مبائل سے پشتو میں کچھ لگا دیا تو بپھر گئے۔ نا پسندیدگی کا اظہار کرنے لگا تو ایک نعت لگا دی۔ اس پر کچھ دیر جھوما۔ اس کے بعد قوالی لگائی جس میں تھوڑا سا میوزک تھا مگر باتیں خدا رسول کی ہو رہی تھیں۔ اس سے بھی لطف لیا۔ اب ایک ایسا گیت چھیڑا جس میں باتیں تو عاشقی معشوقی کی ہو رہی تھیں مگر بیک گراؤنڈ میوزک نہ تھا۔ سریلی آواز میں کوئی نغمہ سرا تھا۔ اس کو بھی سنا۔ سکوت اختیار کیا۔ قصہ مختصر یہ کہ بیس منٹ اسی طرح کی مشقت کے بعد ہم دونوں پشتو کے ان شور شرابے والے ڈرائور وں کے بے ہودہ گانوں پر جھوم رہے تھے۔ یہ ٹیک نیک ہم نے صبح کے وقت سواری والے ڈرائوروں سے سیکھی ہے۔ دوپہر کو تو خیر کوئی بھی گانا لگا دیتے ہیں مگر صبح کے وقت تلاوت یا نعت یا پھر مولانا طارق جمیل سے شروع کرتے ہیں۔ بیچ میں قوالی ہوتی ہے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ اصل مدعے پر آتے ہیں۔
یہاں تنقید یا تنقیص کا پہلو نہ نکالیں۔ کوئی ہدفِ تنقید نہیں۔ معاشرے اور معاشرے کے رویوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ گپ شپ کی طرح لیں۔
0 Comments