آغا خان چہارم



( آج چونکہ پرنس کریم آغاخان کا 88 واں یوم پیدائش ہے اسلیے سی این این 24 کی طرف سے تمام  اسماعیلی برادری کو امام کا سالگرہ مبارک اور یہ خصوصی رپورٹ پیش خدمت ہے ) 


ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان 13 دسمبر 1936ء کو سوئٹزرلینڈ کے مشہور شہر جنیوا میں پیدا ہوئے۔ 1957ء میں آغا خان سوم کی رحلت کے بعد پرنس کریم آغا خان کو امام بنایا گیا۔ شاہ کریم الحسینی آغا خان چہارم اسماعيلى فرقے کے سب سے بڑے گروہ نزاریہ جو اب آغا خانی یا اسماعیلی کہلاتے ہیں کے امام ہیں۔

شیعیہ امامیہ سلسلے  کا دوسرا بڑا فرقہ اسماعیلیہ ہے۔ اسماعیلیہ کی سب سے بڑی شاخ آغا خان کے پیروکار نزاری اسماعیلی ہیں جو تقریباً دو تہائی اسماعیلیوں پر مشتمل ہے۔ اسماعیلیوں کا دوسرا بڑا گروہ بوہرہ جماعت ہے، جن میں امامت کی بجائے داعی مطلق کا سلسلہ ہے۔ اور وہ آغا خان کو امام نہیں مانتے۔ آغا خان چہارم نزاریہ اسماعیلیوں کے 49 ویں امام ہیں اور اغاخان شاہ کریم الحسینی کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ امام آغاخان کو شریعت کی تعبیر و توضیح کے وہ تمام اختیارات حاصل ہیں، جو ان کے پیش روؤں کو حاصل تھے۔ آغا خان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی مخصوص خطہ زمین پر تسلط نہ رکھنے کے باوجود ایسے حکمران ہیں، جو اپنے پیرو کاروں کے دِلوں پر حکومت کرتے ہیں۔ ان کی ہدایت حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے اور اسماعیلی خواتین و حضرات بلا چون و چرا خود کو اس پر عمل کرنے کا مکلف سمجھتے ہیں۔


وہ دورانِ تعلیم ہی جانشین بن گئے تھے اور اسی زمانے میں امامت کی اہم ذمہ داری انھیں سونپ دی گئی تھی، تاہم 1958ء میں انھوں نے اپنے سلسلہ تعلیم کا دوبارہ آغاز کیا اور بی، اے کیا، اس دوران میں انھوں نے تحقیقی مقالات بھی لکھے۔


انھوں نے اکتوبر 1969ء میں سلیمہ نامی لڑکی سے شادی کی تھی، جس سے تین بچے (1) زہرہ آغا خان، (2) رحیم آغا خان، (3) حسین آغا خان پیدا ہوئے، مگر 25 سال کے بعد اسے طلاق دے دی۔ اس کے بعد 1998ء میں بیگم انارہ کے ساتھ دوسری شادی کی تھی، جن سے ایک بیٹا علی محمد آغا خان پیدا ہوا۔ مگر پھر چند سال بعد بیگم انارہ کو بھی طلاق دے دی۔


ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان دنیا بھر کے لوگوں کی مالی، معاشی، علمی اور آبادیاتی مد میں مدد کے لیے ہر وقت کمر بستہ ہیں۔ ان کا بنایا ہوا ادارہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے مشہور ہے اور بیک وقت کئی زیلی اداروں کی سرپرستی کرتا ہے۔ پرنس کریم آغاخان کو بین الاقوامی زبانوں میں عبور حاصل ہے۔ وہ انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی زبانیں روانی سے بولتے ہیں، مگر عربی اور اردو اٹک اٹک کر بولتے ہیں۔


ان کے مشغلے گھوڑ دوڑ اور اسکیٹنگ، فٹ بال، ٹینس اور کشتی رانی ہیں۔ ایک قول کے مطابق وہ کسی زمانے میں ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے اسکیٹنگ کے اولمپک چمپین بھی بنے تھے۔


آغاخان چہارم شاہ کریم الحُسینی 20 سال کی عمر میں 11 جولائی 1957 کو اسماعیلی فرقے کے 49 ویں امام کی حثیت سے تخت امامت پر جلوہ افروز ہوئے۔

ابتدائی طور پر، ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان چہارم ریاضی، کیمیات: کیمیات سائنس اور جنرل سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، آپ نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ شروع کیا جس میں اسلامی فرقے اور تصوف کا بغور مطالعہ کیا۔ جب آپ پر امامت کی اہم زمہ داری سونپی گئی آپ نے اسی دوران میں ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجوییشن اور بی اے ہانرز اسلامک تاریخ کی ڈگری حاصل کی۔ 1957–1958 میں جہان مسلم دنیا اور دیگر غیر مسلم برادری کے درمیان میں دُوری کو ختم کرنے اورلوگوں کی معیار زندگی کو بہتر بنانے میں آپ نے اہم کردار اداکیا،جہان جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ میں نسلی طور پر کشیدہ ماحول عرُوج پر تھی۔ 1972 میں جب یوگینڈا میں صدر لودی امین کی حکومت نے فرمان جاری کیا کہ جنوبی ایشیاٰ کے باشندوں اور نزاری اسماعیلی کو 90 دن کے اندر اس ملک چھوڑنے کی مہلت دی اُس وقت ہزہائی نس پرنس کریم آغاخان نے کینیڈین وزیر اعظم پیری ترودیو سے ان تمام خاندانوں کو کینیڈا میں آبادکاری کی درخواست دی جسے وزیر اعظم نے قبول کر کے اپنے ملک کے دروازے کھولنے پر اتفاق کیا اج کینیڈا دنیا کی سب سے تیز ترقی یافتہ ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے آپ نے اپنی گراں قدر خدمات اور کوشیش تیز کردی اور آغاخان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کی بیناد رکھی، جو دنیا کے تقریباً 35 ملکوں میں غربت اور انسانی زندگی کا معیاربہتر بنانے میں تقریباً 80،000 ورکرز اے کے ڈی این کے مختلف اداروں کے ساتھ منسلک ہیں، جس میں آغاخان فاؤنڈیشن، آغاخان ھیلتھ سرویسز، آغاخان پلانگ اینڈ بلڈنگ سرویسز، آغاخان ایکنومک سرویسز،آغاخان ایجنسی فار مائیکروفائینینس، کے علاوہ فوکس ( اف او سی یو ایس ) قابل زکرہیں جس کی براہ راست آپ خود نگرانی کرتے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان اور چترال کی ترقی میں ہزہائی نس آغاخان کی کردارکو دیکھیں تو بالکل واضح ہے، 1960 میں جب پہلی دفعہ آپ گلگت بلتستان ہنزہ تشریف لائے تو آپ نے خود وہاں کے لوگوں کی حالات زندگی دیکھ کر کافی مایوس اور پریشان ھوئے جس کے بعد آپ کی رہنمائی اور ہدایت کی روشنی میں ایک جامع حکمت عملی تیار ہوئی اور 1980 میں آغاخان فاؤنڈیشن نے گلگت بلتستان میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، آغاخان ھیلتھ سرویسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جو آج بھی اس علاقے کی ترقی اور خوش حالی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ غرض یہ کی ہزہائی نس کی خدمات نہ صرف اسماعیلی جماعت تک محدود ہیں بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی لوگوں کی فلاح ؤبہبود کے لیے سرگرمِ عمل ہیں، آپ کی ان خدمات کو سراہتے ھوئے آپ کو دنیا کے بے شمار خطابات، اعزازات اور القاب سے نوازا گیا ہے، جس میں 1936 تا 1957 آپ کو پرنس کریم آغاخان اور 1957 سے اب تک ہزہائی نس دی آغاخان چہارم اور 1959 سے 1979 تک ہزرائل ہائی نس دی آغاخان چہارم،1977 سے 2009 تک کی اعدادؤشمار کے مطابق دُنیا کے 20 ممالک نے آپ کو اپنی قومی اعزازات سے نوازا، دُنیا کی 19 بہترین یونیورسٹیوں نے آپ کو اعزازی ڈگریوں سے نوازا اور دُنیا کے 21 ممالک نے 48 ایواڈ آپ کو اپکی شانداراور گراں قدر خدمات اور اسانیت کی فلاح ؤبہبود کے لیے کام کرنے پر نوازا ہے۔ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں آپ کو نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا۔


تعلیم کے میدان میں خدمات 

آغا خان ایجوکیشن سروس، پاکستان


ایک صدی پیشتر سرآغا خان سوم سلطان محمد شاہ کی دوراندیش نظر نے یہ بھانپ لیا تھا کہ برضغیر کے مسلمانوں کی نجات اور آزادی کا واحد ذریعہ تعلیم کی اشاغت ہے۔یہ سوچ گوادر کے ایک ساحلی ماہی گیروں کے چھوٹے سے گاؤن میں اسکول کے قیام سے حقیقت میں تبدیل ہو گئی۔آغاخان ایجوکیشن سروس پاکستان اس خطہ کا اولین غیر سرکاری تعلیم رساں ادارہ ہے۔


اس وقت یہ ادارہ پاکستان کے سب سے بڑے نجی اداروں میں سے ایک ہے جو طلبہ کو ایسی تعلیم و تربیت بہم پہنچارہاہے۔ جو انھیں علم کا تا حیات و متوازن طلب گار بنائے رکھے۔


تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق (AKES.P)آغا خان ایجوکیشن سروس، پاکستان اس وقت156 اسکول اور 5 ہوسٹل چلا رہی ہے جوپورے پاکستان میں طلبہ و طالبات کو اسکول کی باقاعدہ تعلیم سے قبل(pre-school)، ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجہ  تک معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ اِن اسکولوں میں درج طلبہ و طالبات کی تعداد 44,500 اوراساتذہ کی تعداد 2,200ہے جبکہ 2,000 رضاکار بھی آغا خان ایجوکیشن سروس، پاکستان کی اعانت کرتے ہیں۔پاکستان میں آغا خان ایجوکیشن سروس سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے جن کی  بڑی تعدادلڑکیوں   پر مشتمل ہے۔ ملک کے دیگر دور دراز علاقوں میں بھی تعلیمی معیار بہتر بنانے کے لیے ٹھوس کوششیں کی جا رہی ہیں۔گلگت-بلتستان اور چترال کے علاقوں میں ، آغا خان اسکول 1940 کی دہائی میں قائم کیے گئے تھے اور اُس وقت سے اِن اسکولوں نے ، پاکستان کے دور دراز  اورشمالی پہاڑی علاقوں میں خواندگی کی شرح میں اضافے اور سماجی و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اِس وقت آغا خان ایجوکیشن سروس، پاکستان، گلگت-بلتستان اور چترال میں 148 اسکولوں کے ذریعے 34,000 سے زائد طلبہ و طالبات کو معیاری تعلیم فراہم کر رہی ہے جن میں 50 فیصد لڑکیاں ہیں۔آغا خان ایجوکیشن سروس، پاکستان، کراچی میں چار، حیدرآباد سمیت  سندھ کے دیہی علاقوں میں تین اور حافظ آباد، پنجاب، میں ایک اسکول چلارہی ہے جن میں 10,500 سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔آغا خان ایجوکیشن سروس، پاکستان کے تمام اسکولوں میں قومی نصاب پڑھایا جاتا ہے اور انگریزی، حساب  اور سائنس کی تعلیم کے علاوہ اطلاعات و مواصلات کی ٹیکنالوجی)آئی سی ٹی(کے استعمال پرخصوصی زور دیا جاتا ہے ۔


AKES.P سرکاری اور مقامی رضاکارتنظیموں کے ساتھ مل کر سرکاری و نجی شراکت پر مبنی ماڈل اسکولوں کے ارتقا میں مسلسل مصروفِ عمل ہے۔جو وزارتِ تعلیم حکومت پاکستان کی سطح پر تعلیمی اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔


ابتدا میں شمالی علاقہ جات اور چترال میں کئی اسکول جماعت خانوں کی راہ داریوں میں یا عارضی پناہ گاہوں میں اور کچھ کھلے آسمان تلے قائم کرنا پڑے۔ان مشکلات کو حل کرنے کے لیے AKES.P نے آپنی مدد آپ کی بنیاد پر اسکولوں کی تعمیر کا پروگرام 1984ء میں شمالی علاقہ جات میں شروغ کیا جبکہ 1988ء میں یہ پروگرام چترال تک پھیل گیا۔ اب تک 500سے زائد فعال تعلیمی اور زلزلہ سہنے کی صلاحیت رکھنے والے کمرہ جماعت تعمیر کیے گئے ہیں۔


جنوبی خطہ میں کراچی شہر میں AKES.P چار اسکول بنام سلطان محمد شاہ آغاخان اسکول ،آغاخان ہائیر سکینڈری اسکول۔کراچی آغاخان اسکول کھارادر اور آغاخان اسکول گارڈن چلارہا ہے۔ تین اسکول حیدرآباد اور اندرونِ سندھ میں ایک گوادر میں اور ایک حافظ آباد میں کل ملاکر 10.000 سے زائد طلبہ و طالبات کی تعلیمی ضروریات کو پورا کررہا ہے۔ آغاخان ایجوکیشن سروس پاکستان کے تمام اسکول قومی نصاب پڑھاتے ہیں۔لیکن انگریزی۔ریاضی اور سائنس پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔


صحت کے شعبے میں خدمات ۔۔

اے کے ایچ ایس پاکستان


دی آغاخان ہیلتھ سروس، پاکستان دراصل جامع آغاخان ہیلتھ سروسز کا حصہ ہے۔جو ترقی پزیر ممالک میں کام کررہاہے۔اور ابتدائی صحت عامہ سے لے کر مکمل علاج معالجہ کی سہولتیں افعانستان، انڈیا، کینیا، تنزانیہ یوگینڈا، تاجکستان اور پاکستان میں فراہم کرتاہے۔اور شام، تاجکستان اور کینیا کی حکومتوں کو صحت کے میدان میں تکنیکی امداد فراہم کرتاہے۔ مگر یہاں ہمارا موضوع آغاخان ہیلتھ سروس پاکستان ہے۔ 


آغاخان ہیلتھ سروس، پاکستان کا پہلا ادارہ ایک 42 بستروں پر مشتمل زچہ اسپتال تھا۔جو جان بائی میٹرنٹی ہوم کے نام سے مشہور تھا۔اور جس کا افتتاح کراچی میں 1924ء میں ہوا تھا۔


آج بھی ماں اور بچہ کی صحت پر بنیادی توجہ برقرار رکھنے کے علاوہ اے کے ایچ ایس ابتدائی صحت کی نگہداشت سے لے کرامراض کی تشخیض اور مکمل علاج کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔


یہ ادارہ سندھ۔پنچاب۔خیبر پختونخواء۔شمالی علاقہ جات اور چترال کے شہری اور دیہی علاقوں میں 1.1 ملین سے بھی زیادہ لوگوں تک پہنچتاہے۔


پاکستان کے سب سے بڑے غیر منافع بخش نجی ادارہ ہونے کی حیثیت سے اس کا مقصد حکومت کے صحت کی نگہداشت کے اقدامات میں اضافہ کرناہے۔خصوصاًماں اور بچے کی صحت اور ابتدائی صحت عامہ کے میدان میں آغاخان ہیلتھ سروس، پاکستان کی مخصوص مقامی آبادیوں کے صحت کے مسائل حل کرتا ہے۔اس کام کو بہتر طور پر سر انجام دینے کے لیے صحت عامہ کے نظام کو غیر مرکزی رکھا گیاہے۔اور سہولتوں کی نوعیت اس کے پانچ پروگرام کے علاقوں کی ضروریات کے مطابق ہیں۔جس میں کراچی، سندھ، پنچاب، سرحد اور شمالی علاقہ جات اور چترال شامل ہیں۔


پاکستان کے جن دیہی علاقوں میں آغاخان ہیلتھ سروس، پاکستانسرگرم عمل ہے۔ان کی بنیادی طبی سہولیات دوردراز علاقے کے لوگوں تک پہنچتی ہیں خاص طور پر شدید خطرے سے لاحق گروپ مثلاًماں اور نوازئیدہ بچے اس ادارے کی اولین ترجیح ہیں۔عوام الناس کے لیے تشخیص کی تسلی بخش سہولت ؛علاج اور ماہر ڈاکٹروں کے پاس بھیجنے کا انتظام ہے۔


آغاخان ہیلتھ سروس، پاکستان کے 47 صحت مراکز کراچی میں 27 سندھ میں 14پنچاب اور خیبر پختونخواء میں۔33 شمالی علاقہ جات اور31 چترال میں کام کر رہے ہیں۔


پاکستان کے شمال میں آغاخان ہیلتھ سروس، پاکستان نادرن پاکستان پرائمری ہیلتھ کیئر پرگرام 1987 ء سے چلارہا ہے۔

اس ادارے کا مقصد مقامی آبادیوں، حکومت اور دوسرے AKDN کے ادارے جیسے AKRSP کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اونچے پہاڑوں کی وادیوں میں ابتدائی طبی سہولیات فراہم کرنااور ان مراکز کو خودکفیل بنانے کے لیے مالی ذرائع تلاش کرنا ہے۔


اس اشتراک نے دیہی سطح کے طریقہ کار کی طرف مائل کیاہے۔جن میں مقامی گاؤن کے سماجی اداروں کی مدد سے کمیونٹی ہیلتھ ورکرزکا تعین کیا جانا۔ان ورکرز کو سماجی اقدام کے ذریعے بیماریوں سے بچاؤ کی تربیت دینا اور ابتدائی صحت کے میدان میں سرکاری اور نجی اداروں کے پیشہ ورانہ لوگوں کو دوبارہ تربیت دینا شامل ہے۔


آغاخان ہیلتھ سروس، پاکستان نے شمالی علاقہ جات اور چترال میں 977کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور 967 دائیوں کو تربیت دی ہے۔اس تربیتی پرگرام اور اس سے منسلک دوسرے پرگراموں کی مدد سے آغاخان ہیلتھ سروس، پاکستان بنیادی صحت کے میدان میں طبی سہولیات کو پاکستان میں نئی سمت میں فروغ دے رہاہے۔ اس جہدوجہد میں AKF اور AKU کا قریبی اشتراک بے حد اہم رہاہے۔یہ تینوں ادارے مل کر بیماریوں سے بچاؤ اور علاج معالجے کی سہولیات کا ایک منظم اور مربوط نظام وضع کرنے کی جہدو جہد کر رہے ہیں۔یہ نظام گاؤن کی سطح کے ہیلتھ سینٹرزسے لے کر کراچی میں آغاخان یونیورسٹی کی سطح تک پھیلا ہوا ہے


مآخذ 

یہ معلومات ویکییپیڈیا اور اے کے ڈی افیشل پین سے لی گئی ہیں