"ہجوم سے قوم کب بنیں گے "



حکمران وہ ہوتا ہے جس کے پاس حکم ہوتا ہے حکم ایک پاور ہے اس کی قدرو قیمت ہے حکمران لوگوں پر حکمران ہوتا ہے اس کا حکم بجا لانے والے بھی لوگ ہوتے ہیں اگر لوگ نہ ہوں تو حکمران کی بھی حیثیت ختم ہوجاتی ہے ۔۔۔اس حکم کی وقعت بھی اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب یہ حکم زندہ قوموں پر چلایا جاۓ ۔یہ حکم ان کے حقوق کی حفاظت کرے ۔۔زندگی کی ممکنہ اسائشیں ان کو مہیا کرے ۔ان کے مسائل حل کرے ان کو شکایت کا موقع نہ دے ورنہ تو یہ حکم نہیں کہلاتا یہ ظلم بن جاتا ہے۔۔ظلم کی عمر تھوڑی ہوتی ہے کم ہے اس کا انجام بھی برا ہے ۔یہ دنیا دو دن کی ہے اگر موت انسان کے اختیار میں ہوتی تو فرعون کسی بھی قیمت میں موت کے منہ میں نہ چلا جاتا اپنے آپ کو بچاتا اگر حکمران انجام کو سوچے تو اس کے ہاں انصاف کی ابیاری ہوتی ہے ظلم اپنی موت مرتا ہے اسی حکمران کو سب سے زیادہ اپنے رعایا کی فکر ہوتی ہے وہ راتوں کو نہیں سوتا ۔اگر رعایا ان نعمتوں سے محروم ہے تو اس کی ذمہ داری حکمران پر ہے ۔۔۔ملک خداداد اپنی بنا سے اب تک مسلسل کرائسس کا شکار رہا ہے ۔ابو اس کی تخلیق کے چشم دید گواہ تھے ۔۔بعض ایسی کہانیاں سناتے کہ ملک خداداد پہ عضب کا پیار آتا ۔بعض واقعات وہ رورو کر سناتے ۔۔قربانیوں کا ذکر کرتے ۔۔اس جذبے کا ذکر کرتے جو اس کی تخلیق کے لیے ایک عام بندے کے سینے میں موج زن رہتا ہے ۔۔۔وہ ایسے اس ملک کی تخلیق کا انتظار کر رہے تھے جیسے مضبوط عقیدہ والا مومن جنت کا انتظار کر رہا ہو ۔۔گویا وہ اپنے لیے جنت بنا رہے تھے ۔۔ابو کہتے بیٹا واقع یہ جنت ہے مگر ہم اس کے رکھوالے۔۔۔۔۔ابو خاموش ہو جاتے ۔۔۔ان کی پر اسرار خاموش مجھے تجسس پہ ابھارتی میں اس انتظار میں ہوتا کہ ابو کی پر اسرار خاموشی کب ٹوٹے۔۔۔ایک بار اسی طرح کی کیفیت تھی کہ ابو کی خاموشی ٹوٹی ۔۔۔۔کہا ۔۔بیٹا ! ہم دسویں جماعت میں تھے۔۔جلوس پہ گئے مار کھائی میری پیشانی پہ پٹی باندھی ہوئی تھی ۔۔پتا نہیں سکول کا پرنسپل کیوں ہماری کلاس میں تشریف لاۓ میری پٹی دیکھ کر استفسار کیا میں نے واقعہ بتایا تو انہوں نے سوال داغا کہ تم لوگ پاکستان بنانا کیوں چاہتے ہیں ؟انگریزوں کی حکومت سے تمہیں تکلیف کیا ہے ۔۔ہمارے ایک پٹھان ساتھی کھڑے ہوۓ اور نہایت جذباتی انداز میں کہا کہ ہم انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔پرنسپل صاحب نے تبسم فرمایا اچھا اس کا مطلب ہے کہ تم غلام ہو اس نے کہا بیٹاإ غلامی ایک کیفیت کا نام ہے ۔۔ ہاں اگر کوٸی اپنے آپ کو غیروں کا غلام سمجھتا ہو تو ٹھیک ہے لیکن یاد رکھیں اپنوں کی غلامی غیروں کی غلامی سے سخت ہے اس کیفیت میں قوم پہلے ہجوم بن جاتی ہے پھر ریوڑ ۔۔ریوڑ کو کوئی بھی ہنکا کے لے جاتا ہے یہ ایک ایسے کارواں کی شکل اختیار کرتا ہے کہ اس کو خود پتا نہیں ہوتا کہ اس کا متاع لٹ چکا ہے کیوں کہ اس کا احساس زیان مر چکا ہوتا ہے ۔انگریز پرنسپل نے کہا بیٹا إ تم انگریزوں سے آزادی حاصل کرو گے لیکن یاد رکھیں اپنوں کا غلام بن جاو گے کم از کم 100سال یہی کیفیت رہے گی ۔اپنے تمہیں لوٹتے رہیں گے تمہاری ریوڑپن سدھرے گی نہیں سو سال گزرے گا  تب جا کے کہیں تم ہوش میں آوگے پھر ہجوم بن جاوگے پھر قوم بننے کا مرحلہ آۓ گا ۔۔ہاں اگر تمہارے یہ لیڈرز پہلے تمہیں قوم بنائیں تو ٹھیک یے تم میں قوم بننے کی صلاحیتیں پیدا نہیں ہوئیں ہمارے ہاں بھی بظاہر جمہوریت آئی ثمرات نہیں آۓ اسی اندھیرے میں سو سال گزارے اب کہیں جا کے ہم نے سمجھ لیا کہ نفع نقصان ،آزادی غلامی ،ترقی تنزل،خوشحالی بد حالی ،حکران رعایا ،حقوق فرائض کیا ہوتے ہیں ۔۔تمہارے پاس زمین کا ٹکڑا ہوگا مگر اس کے اندر انصاف اپنی موت مرے گا کیوں کہ انصاف کرنے والا نااہل ہوگا ۔حکمرانی کانام و نشان نہ ہوگا کیوں کہ حکمران نااہل ہوگا ۔آزادی مفقود ہوگی کیوں کہ حکمران بد عنوان ہوگا ۔۔ غلامی کی بھیک مانگے گا ۔تمہیں اپنے اوپر اعتبار نہ ہوگا ۔تم سکوں مانگنے ،حفاظت مانگنے ،انصاف مانگنے دوسروں کے دروازوں پر دستک دو گے  انگریز پرنسپل نے کہا ۔بیٹا! اگر برا نہ مناو تو کم از کم انگریزوں سے حکمرانی کے گر سیکھو ۔۔۔مسکرا کر کہا انہوں نے بہت ساری چیزیں تم سے سیکھے تھے جب تم دنیا کے حکمران تھے ۔۔جب فاروق اعظم رض اس زمین میں زندہ تھے۔۔انگریز پرنسپل نے دور خلاوں میں گور کر کہا ۔۔۔۔کپڑوں پر پیوند لگے عظیم حکمران ۔۔۔۔۔۔ابو پھر خاموش ہوگئے ۔۔۔۔اب ابو بھی، ابو کی باتیں اور انگریز پرنسپل کی یادیں ستاتی ہیں ۔۔جب آئی ایم ایف ،ورلڈ بنک ، مہنگائی ، تنخواہوں کی بندش ،پنشن کی بندش سرکاری ملازمین کی دربدری،احتجاج ،دھاٸی ،دھرنے اور حکمرانوں کے تجاہل عارفانہ ،اپنی عیاشیوں میں مست ہونا عوام سے بے خبری یہ سب دیکھ کر انگشت بدندان ہیں حیران و پریشان ہیں ۔کیا ہم نا اہل ہیں یا ہمارے ہجوم سے قوم بننے میں تیس سال اور باقی ہیں۔۔۔۔۔