ہندوکش بس سروس: کیپٹن سراج الملک کے نام ایک خط



کیپٹن سراج الملک کے ساتھ بہت ساری باتوں اور معاملات میں اختلاف کے باوجود ان کی صلاحیتوں اور دور اندیشی کا معترف نہ ہونا زیادتی ہوگی۔ چاہے وہ ہندوکش ہوٹل ہو یا ہندوکش بس سروس، دونوں اپنی مثال آپ ہیں۔ ہندوکش بس سروس چترالی مسافروں، خاص کر کے خواتین کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ اس کی کار کردگی میں آئے روز بہتری آتی رہتی ہے جس سے اس میں سفر کا معیار بھی بہتر ہو رہا ہے۔


ان تمام خوبیوں کے باوجود کچھ باتیں قابل غور بھی ہیں جن کی وجہ سے اس سروس کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔


اول الذکر یہ کہ کچھ مہینوں سے فرنٹ کی آٹھ نشستوں کے لئے یہ کہہ کر اضافی کرایہ لیا جا رہا ہے کیونکہ، بقول کمپنی کے، یہ لگژری سیٹس ہیں۔ حالانکہ ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اس حوالے سے اگر میری رائے غلط ہے تو میری تصیح کی جائے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس پر غور کر کے اس میں بہتری لائی جائے۔


دوسری بات سامان کے حوالے سے ہے۔ ایک بیگ کے علاوہ ایک چھوٹے شاپر یا کارٹن پر بھی ڈرائیور حضرات کی طرف سے فی شاپر یا کارٹن پانچ سو کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسی کسی بھی اچھی بس سروس میں سامان کے حوالے سے کوئی قدغن نہیں ہوتا ہے۔ ہندوکش جیسی بس سروس کی طرف سے بھی چترال کے عام اڈوں کی طرح ایسا کرنا اس کو زیب نہیں دیتا ہے۔


اس حوالے سے اگر کمپنی کی ایسی پالیسی ہے تو اس میں تبدیلی لائی جائے۔ اگر یہ ڈرائیوروں کی طرف سے کوئی شوشہ ہے تو مناسب طریقے سے ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے تو یہ کچھ نا معقول ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کی ملی بھگت ہے۔ وہ بس کمپنی اور کیپٹن سراج کا نام لے کر پیسے وصول کرتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی رسید بھی نہیں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک دو ڈرائیور صاحبان ایسے بھی ہیں جو نہ ایسا تقاضہ کرتے ہیں اور نہ ہی مسافروں کے لئے کوئی مسلہ پیدا کرتے ہیں۔


تیسری گزارش بس کی کنڈیشن کے حوالے سے ہے۔ سڑکوں کی بری حالت کی وجہ سے دوسری گاڑیوں کی طرح یہ بسیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ مشینری کی ریپیر ہوتی ہے لیکن بس کے اندر مسافروں کی سہولت کے لئے سہولیات کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ ایک بس میں اوور ہیڈ کیبنٹ تک نہیں ہیں۔ کچھ سیٹس میں کشن ہیں لیکن زیادہ تر خالی ہیں۔ اس میں عوام سے بھی گزارش ہے کہ وہ بس کے اندر بس کی سیٹوں کا خاص خیال رکھ کر ان کی حفاظت میں مثبت کردار ادا کریں۔


چوتھی گزارش اڈہ کے حوالے سے ہے۔ پنڈی پیر ودھائی اڈہ اسلام آباد میں مقیم مسافروں کے لئے دور پڑتا ہے۔ ان کے لئے اسلام آباد میں کسی مناسب جگہ سے پک کرنے کا کوئی انتظام کیا جائے یا شٹل سروس شروع کی جائے تاکہ مسافروں کے لئے اڈے تک رسائی آسانی ہو۔ صبح جلدی سے چترال پہنچنے پر چترال کے گرد و نواح کے مسافروں کے لئے چھاؤنی کے پاس سے جانا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے ان مسافروں کی سہولت کے لئے ان کو کم سے کم کڑوپ رشت یا چیو پل تک رسائی دی جائے۔ اس کے لئے مناسب طریقہ یہ ہوگا کہ بس آتے ہوئے شھاڈوک اور چیو پل سے ہوتے ہوئے واپس اڈہ جائے۔ اس میں 20 سے 30 منٹ لگیں گے۔ 10 گھنٹوں کے سفر میں آدھے گھنٹے کا اضافہ کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔ تاہم یہ دنین، بلچ، سنگور، گولدور، چیو ڈوگ، جنگ بازار، زرگران دہ، وغیرہ کے مسافروں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوگی۔ 


سب سے آخر میں بس سروس کے عملے، خاص کر کے ڈرائیور کے حوالے سے بات کی جائے تو بس کیپٹن رشید کی کارکردگی سب سے منفرد اور اعلی ہے۔ یہ جنٹلمین مسافروں کو فیسیلیٹیٹ کرانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ چترال کے رشید کا اخلاق قابل تعریف بھی ہے اور قابل رشک بھی۔ سفر کرتے ہوئے اگر یہ آپ کا کیپٹن ہو تو دل خوش ہوتا ہے۔ میری گزارش ہوگی کہ ان کے ذریعے سے دوسرے ڈرائیوروں کو پروفیشنل اسکلز سکھائے جائیں تاکہ بس کی سروس میں مزید بہتری لائی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہر بس میں ایک شکایت باکس رکھی جائے اور مسافروں سے ان کی رائے لی جا سکے۔ اس سے عملے کی کارکردگی کی جانچ ہوگی اور ساتھ ساتھ سروس کو مزید بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

منجانب ؛ احتشام الرحمٰن