فتنے کے دور میں کیسے جینا ہے ؟


حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہارے سامنے فتنے ہوں گے اندھیری رات کی گھڑیوں کی طرح ۱؎ ان میں صبح کو آدمی مومن رہے گا اور شام کو کافر، اور شام کو مومن رہے گا اور صبح کو کافر، اس میں بیٹھا ہوا کھڑے شخص سے بہتر ہو گا، اور کھڑا چلنے والے سے بہتر ہو گا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا“، لوگوں نے عرض کیا: تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے گھر کا ٹاٹ بن جانا(ابو داؤد)


حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں دو شخص سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، آپ کیوں میدان جنگ میں نہیں اترے؟ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے رمایا : اس لیے کہ اللہ نے ہر مومن کا خون حرام کر دیا ہے 

انہوں نے پلٹ کر پوچھا : کیا فتنے کے باقی رہنے تک لڑنا اللہ کا حکم نہیں؟

 آپ نے فرمایا :  ہم نے اس حکم اور ذمے داری کو نبھایا بھی ، یہاں تک کہ فتنہ دور ہو گیا اور دین سب اللہ ہی کا ہو گیا، اب تم اپنی اس باہمی جنگ سے فتنہ کھڑا کرنا چاہتے ہو اور غیر اللہ کے دین کے لیے ہو جانا جاہتے ہو۔ (صحیح بخاری)


صحابہ کرام کی باہمی جنگوں کے دوران حضرت عبد اللہ بن عمر ،حضرت ابو ہریرہ ودیگر جلیل القدر صحابہ بالکل نیوٹرل رہے خود کو کسی فریق کا حصہ بنانے سے گریز کیا اس کے باوجود کسی فریق کی جانب سے ایسے صحابہ کو بزدل ، مداہنت کا مرتکب اور واجب القتل قرار نہیں دیا گیا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہاں تک آتا ہے کہ جنگ صفین کے دوران وہ کھانا حضرت امیر معاویہ کے کیمپ میں کھاتے اور نماز پڑھنے کےلئے حضرت علی کے کیمپ میں چلے جاتے اور فرماتے کھانا معاویہ اچھا کھلاتا ہے اور نماز علی اچھی پڑھاتا ہے، ان حضرات کا طرز عمل فتنوں کے دور کے لئے مشعل راہ ہے حالانکہ یہ خیر القرون کا دور تھا آج کے دور میں تو معاملات اور بھی مشتبہ ہوگئے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا کون کیا کر رہا ہے ،کس کے ایماء پر کر رہا ہے اور کس ایجنڈے کے تحت کر رہا ہے 


لطیف الرحمن لطف