چترال کی تعلیم یافتہ لیکن بے روزگار لڑکیوں کی خاموش مایوسی-  تحریر محروش فاطمہ 



چترال، وہ خوبصورت سرزمین جو ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں سانس لیتی ہے، جہاں فطرت کی دلکشی اور انسانی محنت کا سنگم نظر آتا ہے۔ برف سے ڈھکی چوٹیاں اور چمکتے دریا اسے جنت کا روپ دیتے ہیں، مگر اس پرسکون منظر کے پیچھے ایک ایسی حقیقت چھپی ہے جو دل کو چھو لیتی ہے۔ یہاں کی ہر لڑکی تعلیم یافتہ ہے، ماسٹرز کی ڈگری اس کے ہاتھ میں چمکتی ہے، لیکن نوکریاں اتنی ہی کم ہیں جتنا کہ ریگستان میں پانی۔ دوسری طرف، ان کے والد—ہر گھر کے سربراہ محنت مزدوری  کر کے  ،کرتے ہیں، تاکہ اپنی بیٹیوں کے خوابوں کو سہارا دے سکیں۔ یہ کہانی ہے ان لڑکیوں کی، جن کے خواب تعلیم کے بعد بھی ادھورے رہ گئے، اور ان والدین کی، جو دور دراز محنت مزدوری کرتے ہیں۔


تصور کریں ایک 26 سالہ لڑکی، امینہ، جس نے اپنی زندگی کے قیمتی سال کتابوں میں گزارے۔ راتوں کو جاگ کر پڑھا، امتحانات دیے، اور ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کا خواب تھا کہ وہ اپنے علم سے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے خاندان کا مستقبل سنوارے گی۔ اس کے والد، گلزار خان، اسلام آباد میں میسن ہیں۔ ہر مہینے وہ اپنی محنت کی کمائی کا ایک چھوٹا سا حصہ گھر بھیجتے ہیں۔ فون پر ان کی تھکی ہوئی آواز میں امید جھلکتی ہے: "بیٹا، تمہاری نوکری ہماری زندگی بدل دے گی۔" مگر سال گزرتے گئے، اور امینہ کے ہاتھ اب بھی خالی ہیں۔


امینہ کی ماں کپڑے سی کر گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹاتی ہیں، لیکن خاندان کی ساری امیدیں امینہ سے وابستہ تھیں۔ وہ اپنے والد کی محنت اور ماں کی چھپی پریشانی کو محسوس کرتی ہے، اور اسے لگتا ہے کہ اس کی ڈگری ایک بوجھ بن گئی ہے۔


چترال میں تعلیم کوئی انوکھی بات نہیں—یہ ہر گھر کی کہانی ہے۔ امینہ کی دوست سائرہ کے پاس سوشیالوجی میں ماسٹرز ہے، جبکہ نور نے ادب میں ڈگری لی۔ وہ تینوں امینہ کے چھوٹے سے گھر میں اکٹھی ہوتی ہیں، چائے کے کپ ہاتھ میں تھامے اپنی مایوسی بانٹتی ہیں۔ سائرہ کہتی ہے، "ہم نے دن رات پڑھا، لیکن نوکری نہ ہو تو کیا فائدہ؟" نور سر جھکائے بولتی ہے، "میرے والد دوسروں کے لیے گھر بناتے ہیں، اور میں اپنا مستقبل بھی نہیں بنا سکتی۔" ان کی ڈگریاں دیواروں پر لٹکی ہوئی ہیں، جیسے بھولی ہوئی یادیں، دھول سے اٹی ہوئی، جبکہ یہ لڑکیاں مواقع کی تلاش میں ہیں—مواقع جو کبھی نظر ہی نہیں آتے۔


امینہ نے ہار نہیں مانی۔ اس نے اپنا سی وی لے کر چترال کے سرکاری دفتر، اسکولوں، اور این جی اوز کے دروازوں پر دستک دی۔ ہر بار جواب یکساں تھا: "کوئی آسامی نہیں۔" ایک اسکول کے پرنسپل نے کہا، "تم اوور کوالیفائیڈ ہو، ہم تمہیں تنخواہ نہیں دے سکتے۔" ایک کلرک نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، "اگلے سال آؤ، شاید کچھ ہو۔" مایوس ہوکر امینہ گھر لوٹ آتی، اس کے خواب ہر "نہیں" کے ساتھ چھوٹے ہوتے جاتے۔ وہ راتوں کو اپنی بے کار ڈگری کو دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ آخر اس تعلیم کا مقصد کیا تھا؟


جب امینہ کے والد فون کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں، "بیٹا، کوئی نوکری ملی؟" تو وہ ان کی آواز میں تھکن اور امید دونوں سن سکتی ہے۔ وہ اپنے والد کی قربانی کو یاد کرتی ہے—وہ تپتی دھوپ میں اینٹیں جوڑتے ہیں، جبکہ وہ خود کچھ نہ کر سکی۔ اسے لگتا ہے کہ وہ ناکام ہوگئی—اپنے والدین کے خوابوں کو پورا کرنے میں، ان کی محنت کا صلہ دینے میں۔


ایک شام، وہ سائرہ اور نور کے ساتھ چھت پر بیٹھی ہوتی ہے۔ ہوا میں ٹھنڈک ہے، لیکن ان کے دل بھاری ہیں۔ امینہ کہتی ہے، "ہمارے والد اپنی پیٹھ توڑ رہے ہیں، اور ہم بے بس بیٹھی ہیں۔" سائرہ غصے سے بولتی ہے، "ہم تعلیم یافتہ ہیں، لیکن بے کار۔" نور روتے ہوئے کہتی ہے، "میں اپنے والد کو فخر دینا چاہتی تھی، لیکن اب بس ایک بوجھ ہوں۔"


چترال کی یہ کہانی صرف امینہ، سائرہ، یا نور کی نہیں—یہ ہر گھر کی کہانی ہے۔ یہاں ہر لڑکی تعلیم یافتہ ہے، ہر والد گھر سے  دور ہے ، اور ہر خواب نوکریوں کی کمی کی وجہ سے دم توڑ رہا ہے۔ ان کی تعلیم، جو کبھی امید کی کرن تھی، اب ان کے لیے اذیت بن چکی ہے۔ ان کے والد دور دراز شہروں میں دوسروں کے لیے گھر بناتے ہیں، جبکہ ان کی بیٹیاں انہی پہاڑوں میں قید ہیں، 


اس بے روزگاری کا اثر ان لڑکیوں کی شادی شدہ زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ جو لڑکیاں نوکری حاصل نہیں کر پاتیں، وہ اکثر مایوسی اور ناامیدی کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔ ان کے شوہر، جو پہلے ہی مالی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، مزید پریشانیوں میں گھر جاتے ہیں۔ نوکری نہ ہونے کی وجہ سے، ان لڑکیوں کی ازدواجی زندگی میں تلخیاں جنم لینے لگتی ہیں۔


امینہ اپنے والد کو خط لکھتی ہے، "جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا،" لیکن وہ خود اس پر یقین نہیں رکھتی۔ چترال کی لڑکیاں مایوسی سے زیادہ کی مستحق ہیں—وہ ایک بہتر مستقبل کی حقدار ہیں۔ لیکن فی الحال، ان کی کہانی وادیوں میں گونجتی ایک خاموش چیخ ہے، جو سننے والے کا انتظار کر رہی ہے۔


یہ ہے چترال کی تعلیم یافتہ لیکن بے روزگار لڑکیوں کی کہانی—ایک ایسی کہانی جو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آخر تعلیم کا مطلب کیا ہے جب وہ زندگی نہ بدل سکے؟