عمران خان کی سیاسی جدوجہد



عمران خان پاکستان کی تاریخ کے ان سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ایک طویل اور پرعزم جدوجہد کے بعد عوام میں اپنی جگہ بنائی۔ ان کی سیاست کا سفر مشکلات، کامیابیوں اور چیلنجز سے بھرپور رہا ہے۔ وہ کرکٹ کے میدان سے نکل کر سیاست میں آئے اور ایک ایسے پاکستان کا خواب دیکھا جو خودمختار، کرپشن سے پاک اور عوامی فلاح و بہبود پر مبنی ہو۔


ابتدائی زندگی اور کرکٹ کیریئر


عمران خان 5 اکتوبر 1952 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم آکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی اور کرکٹ کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ 1992 میں پاکستان کو ورلڈ کپ جیتوا کر وہ قومی ہیرو بنے۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے فلاحی منصوبے شروع کیے، جنہوں نے عوام میں ان کی مقبولیت کو مزید بڑھا دیا۔


سیاست میں قدم


1996 میں عمران خان نے "پاکستان تحریکِ انصاف" (PTI) کے نام سے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں ان کی جماعت کو خاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی اور وہ 1997 اور 2002 کے انتخابات میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ تاہم، وہ اپنے نظریے پر قائم رہے اور مسلسل عوام کو کرپشن اور انصاف کے حوالے سے بیدار کرتے رہے۔


2008 کے بعد کا دور اور عوامی مقبولیت


2008 کے انتخابات میں عمران خان نے بائیکاٹ کیا، لیکن 2011 میں لاہور کے تاریخی جلسے کے بعد ان کی جماعت ایک بڑی عوامی قوت کے طور پر ابھری۔ نوجوانوں اور متوسط طبقے میں ان کی مقبولیت بڑھنے لگی، اور "نیا پاکستان" کا نعرہ زبان زدِ عام ہو گیا۔


2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی اور عمران خان نے کرپشن کے خلاف اپنی مہم کو مزید تیز کر دیا۔ 2014 میں انہوں نے دھاندلی کے خلاف 126 دن کا دھرنا دیا، جس نے ان کی سیاست کو مزید تقویت بخشی۔


وزارتِ عظمیٰ اور حکومتی کارکردگی (2018-2022)


2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے واضح برتری حاصل کی اور عمران خان پاکستان کے 22ویں وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دورِ حکومت میں معیشت، خارجہ پالیسی، اور سماجی اصلاحات پر توجہ دی گئی۔ انہوں نے "احساس پروگرام" جیسے فلاحی منصوبے شروع کیے، اور "کرپشن کے خلاف" مہم کو مزید سخت کیا۔ تاہم، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ رہے اور مختلف چیلنجز، جیسے مہنگائی اور سیاسی دباؤ، کا سامنا رہا۔


عدم اعتماد اور اقتدار سے علیحدگی


2022 میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے ملک بھر میں جلسے، احتجاج اور لانگ مارچ کیے۔ وہ اپنے بیانیے "حقیقی آزادی" کے ساتھ عوام میں اترے اور سیاسی میدان میں مزید متحرک ہو گئے۔


حالیہ صورتحال اور سیاسی چیلنجز


اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان کے لیے سیاسی میدان مزید سخت ہو گیا۔ ان کی جماعت کو قانونی چیلنجز، گرفتاریوں، اور عدالتی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور خود عمران خان کئی عرصے سے جیل میں بند ہیں۔  تاہم، وہ اب بھی ایک بڑی عوامی طاقت کے طور پر موجود ہیں اور ان کے حامی انہیں دوبارہ اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔




عمران خان کی سیاسی جدوجہد ثابت کرتی ہے کہ وہ ایک غیر متزلزل اور پرعزم رہنما ہیں۔ ان کی سیاست کو جہاں کامیابیاں ملیں، وہیں شدید مزاحمت اور چیلنجز کا بھی سامنا رہا۔ پاکستان کی سیاست میں ان کا کردار اہم ہے، اور آنے والے دنوں میں ان کا سیاسی مستقبل کیا رخ اختیار کرے گا، یہ وقت ہی بتائے گا۔