پاکستان کا قومی چور: حقیقت یا سیاسی بیانیہ؟



پاکستان کی سیاست میں "چور" اور "کرپٹ" جیسے الزامات کوئی نئی بات نہیں۔ ہر سیاسی جماعت اور رہنما مخالفین پر بدعنوانی کے الزامات لگاتے رہے ہیں، اور عوامی مباحثوں میں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ "پاکستان کا قومی چور کون ہے؟" تاہم، اس سوال کا جواب دینا صرف کسی ایک فرد یا جماعت پر الزام لگانے سے زیادہ پیچیدہ ہے، کیونکہ کرپشن ایک وسیع تر مسئلہ ہے جو مختلف اداروں اور شعبوں میں موجود رہا ہے۔



---


کرپشن اور سیاست: ایک تاریخی نظر


پاکستان کی تاریخ میں کئی سیاستدانوں، بیوروکریٹس، اور کاروباری شخصیات پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی چہرہ "قومی چور" کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔


1970 اور 1980 کی دہائی: اس دوران سرکاری اداروں میں بدعنوانی کے کئی اسکینڈلز سامنے آئے، اور سیاسی شخصیات پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگے۔


1990 کی دہائی: بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے گئے۔ کئی مقدمات درج ہوئے، اور بیرون ملک اثاثوں کے انکشافات سامنے آئے۔


2000 کی دہائی: پرویز مشرف کے دور میں بھی کرپشن کے کئی معاملات سامنے آئے، اور این آر او کے ذریعے بعض سیاستدانوں کو کرپشن کیسز سے ریلیف دیا گیا۔


2010 کے بعد: پاناما لیکس، جعلی اکاؤنٹس کیس، اور دیگر مالیاتی اسکینڈلز کے ذریعے مختلف رہنماؤں کو چور اور کرپٹ کہا گیا۔




---


"چور" کا بیانیہ اور سیاسی ہتھیار


پاکستان میں کرپشن کے خلاف نعرے بازی اکثر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کی گئی۔ "چور" کا لیبل لگا کر عوامی جذبات کو ابھارا جاتا رہا ہے۔


عمران خان نے نواز شریف اور زرداری کو قومی چور قرار دیا اور انہیں کرپشن کے مقدمات میں الجھایا۔


مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے عمران خان کے خلاف بھی کرپشن کے الزامات لگائے، جیسے توشہ خانہ کیس اور دیگر مالیاتی بے ضابطگیاں۔


بیوروکریسی اور دیگر ادارے بھی کرپشن میں ملوث رہے، لیکن ان پر کم بات کی گئی۔




---


اصل مسئلہ: فرد یا نظام؟


اگر ہم حقیقت پسندی سے دیکھیں تو پاکستان میں کرپشن کا مسئلہ کسی ایک فرد تک محدود نہیں۔


بدعنوانی کا سبب کمزور احتسابی نظام ہے جو طاقتور افراد کو قانونی گرفت سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔


اداروں میں شفافیت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے لوٹ مار آسان ہو جاتی ہے۔


عوامی شعور کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ لوگ کرپٹ افراد کو بار بار ووٹ دے کر منتخب کر لیتے ہیں۔




---


نتیجہ: قومی چور کون ہے؟


اگر قومی چور کا مطلب وہ فرد ہے جس نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، تو اس کا تعین کرنا مشکل ہے، کیونکہ ہر دور میں مختلف افراد اور گروہ اس میں ملوث رہے ہیں۔ درحقیقت، ہمارا اصل مسئلہ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے ایک مضبوط اور غیر جانبدار نظام کی عدم موجودگی ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، "قومی چور" کی تلاش جاری رہے گی، اور ہر دور میں ایک نیا چہرہ اس عنوان کے ساتھ جوڑا جاتا رہے گا۔