ٹھہرے تھے میرے ساتھ مگراس قدر نہیں


لمحے وصالِ یار کے بھی معتبر نہیں


پہلے پہل کا لمس تھا رگ رگ سے بولتا

پہلے پہل کی سنسنی بارِ دگر نہیں


گونجے خیالِ یار کی کوئی صدا کہاں

صحرائے دِل کے چار سو دیوار و در نہیں

 

حاصل ہوں کیا اسے کسی منزل کی قربتیں 

اپنی نشاطِ روح سے جو با خبر نہیں 


محدود دائرہ ہے بہت خواہشات کا 

ایسا نہیں کہ میری دعا میں اثر نہیں 


شاید ابھی نصیب میں ہے دھوپ دیکھنا 

اس دشتِ آرزو میں کوئی بھی شجر نہیں 


اثبات کا مقام ہے اور دلبری کی شام 

مانا کسی طرح بھی مرا دل مگر نہیں


ٹھہروں تو ہو گماں کہ کوئی ساتھ ساتھ ہے

چلنے پہ یوں لگے کہ کوئی ہم سفر نہیں


اس کی رفاقتوں پہ مجھے آئے کیوں یقیں

وہ شاذیہ قریبِ رگِ جاں اگر نہیں


شازیہ اکبر

#poetry