وہ ہر لحاظ سے رنگین تھے



منور شاہ رنگین، نام سنتے ہی لبوں پر مسکراہٹ آجاتی تھی، اور دل میں ایک خوش کن لمحے کی بازگشت گونجنے لگتی تھی۔ وہ صرف ایک فنکار نہیں تھے، بلکہ ایک عہد تھے۔ ایک ایسا عہد جو ہنسی، خوشی اور زندگی سے لبریز رنگوں کا مجموعہ تھا۔ ان کے جانے سے جیسے فنِ مزاح کا ایک روشن چراغ بجھ گیا ہے، اور اس کی روشنی کا خلا شاید کبھی پُر نہ ہو سکے۔ وہ ایک شخص نہیں ایک عہد تھا جو تمام ہوا۔ 

ایک مرتبہ ریڈیو میں یوم ازادی کا پروگرام تھا سارے انٹیلیکچولز مدعو تھے جس جس کو بھی ٹاپک پہ بات کرنے کیلیے بلایا گیا کسی نے بھی ٹاپک سے انصاف نہیں کیا میں سوچوں میں گم تھا اتنے میں حقیقت گروپ کے منورشاہ رنگین صوبیدار توکل اور افسر علی کو بلایا گیا انہوں نے بغیر سکرپٹ کے فی البدیہ جھنڈے کی تقدس کے حوالے سے خاکہ پیش کیا یقین جانیے میں حیران رہ گیا۔ وہ صرف مزاحیہ فنکار نہیں بلکہ  بغیر ڈگری کے بہت بڑے دانشور تھے ۔ 

منورشاہ رنگین کا فن زندگی سے جُڑا ہوا تھا۔ ان کے مکالمے، ان کی حرکات و سکنات، ان کے چہرے کے تاثرات—سب کچھ عوام کے دکھوں کا مداوا تھے۔ وہ سٹیج پر آتے، تو سنجیدہ ترین چہرے بھی مسکراہٹ میں ڈھل جاتے۔ ان کا اندازِ مزاح کبھی کسی کو نیچا دکھانے کا نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ ہنسی کو عزت کا جامہ پہناتے تھے۔ یہی ان کی سب سے بڑی خوبی تھی۔


ان کی شخصیت بھی ان کے فن کی طرح رنگین تھی۔ وہ محفل میں بیٹھتے، تو باتوں کی گنگا بہنے لگتی۔ ان کے لطیفے صرف قہقہے نہیں بکھیرتے تھے، بلکہ سوچنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ ان کے فن میں ایک معصومیت، ایک شفافیت تھی—جو آج کے مصنوعی دور میں نایاب ہو چکی ہے۔


منورشاہ رنگین نے کئی دہائیوں تک اسٹیج، ریڈیو، اور پھر سوشل میڈیا پر اپنے فن کا جادو جگایا۔ انہوں نے زندگی کے ہر پہلو کو مزاح کے آئینے میں دکھایا، لیکن کبھی بھی ذوقِ سلیم کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ وہ مزاح کو تفریح سے بڑھ کر، اصلاح کا ذریعہ سمجھتے تھے۔


ان کی وفات ایک ذاتی صدمہ بھی ہے اور اجتماعی نقصان بھی۔ اب جب وہ نہیں رہے، تو ان کی کہانیاں، لطیفے، اور یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ کے لیے بس گئی ہیں۔ ان کا خلوص، ان کا قہقہہ، ان کی مسکراہٹ—سب کچھ ایک میٹھے خواب کی طرح یاد آتا ہے۔


منورشاہ رنگین کی زندگی ایک سبق ہے کہ ہنسانا بھی عبادت ہے، اور اگر کوئی شخص لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر سکتا ہے، تو وہ اصل میں دلوں کا مسیحا ہوتا ہے۔


اللہ منورشاہ رنگین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور ہمیں ان کی یادوں کو زندہ رکھنے کی توفیق دے۔ آمین۔


اقرارالدین خسرو