آزادی اظہار یا زبانی دہشتگردی؟ ایک مہذب معاشرے میں شاعر کی ذمہ داری
حال ہی میں ایک پرانی کھوار نظم کے ایک ٹوٹے پھوٹے بند نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی۔ بزرگ شاعر افضل اللہ افضل کی نظم کے اس حصے میں یہ اشارہ موجود ہے کہ جب تک بلاول بھٹو کے والد، موجودہ صدر پاکستان آصف علی زرداری زندہ ہیں، پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ ویڈیو کلپ اُس وقت وائرل ہوا جب صدر زرداری شدید علیل ہیں اور اسپتال میں زیر علاج ہیں، اور یوں ایک غیر محتاط شعر نے ایک سنگین قومی مسئلے کی شکل اختیار کر لی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، اور سابق وزیر سلیم خان نے پولیس میں شکایت بھی درج کرائی۔ بعد ازاں، افضل اللہ افضل نے نہ صرف اپنے بیان پر معافی مانگی بلکہ تحریری طور پر اپنی وفاداری پیپلز پارٹی سے ظاہر کی، جس کے نتیجے میں وہ پیکا (PECA) قانون کے تحت ممکنہ قانونی کارروائی سے بچ نکلے۔
مگر اصل سوال یہ ہے کہ ہم آزادی اظہار اور زبانی دہشتگردی کے درمیان فرق کہاں رکھتے ہیں؟
میں بطور ایک سنجیدہ شہری اور ادب دوست فرد کے، سمجھتا ہوں کہ شاعری اظہار کا ایک مقدس ذریعہ ہے، جو معاشرے میں اصلاح، تحریک اور شعور بیدار کرنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ مگر جب شاعری کا مقصد کسی کی موت کی خواہش، سیاسی مخالفت میں ذاتی حملے یا نفرت انگیزی بن جائے، تو یہ نہ صرف اخلاقی پستی کی علامت ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ کا ذریعہ بھی۔
ہمارا معاشرہ پہلے ہی شدت پسندی اور عدم برداشت کا شکار ہے۔ ایسے میں جب شاعر، جو کہ معاشرے کی روح تصور کیے جاتے ہیں، انتہا پسندانہ خیالات کا پرچار کریں گے تو نہ صرف وہ خود اپنی ساکھ کھو دیں گے بلکہ معاشرے کو بھی زہر آلود کر دیں گے۔ ایسے حالات میں یہ از حد ضروری ہے کہ ہم ادبی ذمہ داری کا شعور اجاگر کریں اور شاعری کو دوبارہ اصلاحی راستے پر گامزن کریں۔
افضل اللہ افضل کی معافی نے شاید قانونی دروازہ بند کر دیا ہو، لیکن اخلاقی و سماجی سوالات ابھی باقی ہیں۔ چند مقامی شعرا اور سوشل میڈیا صارفین اُن کے دفاع میں آگئے ہیں اور اسے فن کا اظہار قرار دے رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا فن کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی کی موت کی خواہش کریں؟
قلم، خواہ وہ نثر میں ہو یا نظم میں، ایک ذمہ داری کا متقاضی ہے۔ شاعر محض بغاوت کا نشان نہیں، بلکہ وہ معاشرے کے معلم، مصلح اور راہنما ہوتے ہیں۔ آئیں شاعری کو نفرت کا نہیں، محبت، شعور اور اصلاح کا ذریعہ بنائیں۔
0 Comments