سائنس نے جسم سے روح نکلنے کا ثبوت حاصل کرلیا، جان کر آپ کے ہوش اُڑ جائیں گے



واشنگٹن مرنے کے بعد جسم سے روح نکلنے سے متعلق سائنس کے حاصل کرہ ثبوت نے رونگٹے کھڑے کر دیے۔


موت برحق ہے اور جسم سے روح نکلنے جانے سے متعلق بھی سب ہی کو معلوم ہے تاہم یہ عمل کس طرح ہوتا ہے اس کا خالق حقیقی کے علاوہ کسی کو علم نہیں۔


وہیں اس حوالے سے سائنس کی بھی مختلف تحقیق سامنے آتی رہی ہیں، تاہم اس بار کی تحقیق میں کچھ الگ بات سامنے آئی ہے۔


مختلف مذاہب اور فلسفوں میں انسانی ”روح“ کا تصور اہم ہوتا ہے۔ لوگوں نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی کہ مرنے کے بعد ہمارا کیا ہوتا ہے؟


سائنس کیا کہتی ہے؟


ایک طویل عرصے سے، مین اسٹریم سائنس نے روح کے اخراج کے خیال پر بحث کرنے سے گریز کیا ہوا تھا۔ تاہم، ایک امریکی سائنسدان کا خیال ہے کہ اس میں ایک نئی چیز یا تبدیلی دیکھی گئی۔


ڈاکٹر اسٹیورٹ ہیمروف، جو ایک مشہور اینستھیزیولوجسٹ اور پروفیسر ہیں، سمجھتے ہیں کہ انہیں سائنسی ثبوت مل گیا ہے کہ احساس یا شعور، یا جسے کچھ لوگ روح بھی کہتے ہیں، یعنی جب ہم مرتے ہیں تو روح ہمارے جسم سے نکل جاتی ہے۔


انہوں نے 7 شدید بیمار مریضوں پر مشتمل ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جہاں سات شدید بیمار مریضوں کے سروں پر سینسر لگائے گئے تھے اس سے قبل ان کی لائف سپورٹ ہٹا دی گئی تھی۔ جب ان کے دل بند ہوئے اور بلڈ پریشر صفر پر پہنچا تو ایک حیران کن بات سامنے آئی وہ یہ کہ دماغ میں اچانک توانائی کے پھٹنے کا پتہ چلا۔


ڈاکٹر ہیمروف نے بتایا کی ہم نے دیکھا کہ مریضوں کی دماغی سرگرمیاں بند ہوگئیں، لیکن پھر ہم نے توانائی کو آخری دفعہ پھٹتے دیکھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ کچھ ہو رہا ہے جبکہ ویسے کچھ نہیں ہونا چاہئیے۔


x

ہیمروف نے انکشاف کیا کہ دماغ کی پراسرار سرگرمی، جسے گاما سنکرونی (Gamma Synchrony) کہا جاتا ہے، عام طور پر اس وقت دیکھی جاتی ہے جب ہم جاگتے اور سوچتے ہیں۔ لیکن مردہ قرار دیے گئے مریضوں میں یہ سلسلہ 90 سیکنڈ تک جاری رہا۔


ڈاکٹر ہیمروف کا خیال تھا کہ موت کے بعد دماغ میں ہونے والا یہ عمل محض ایک اضطراب سے زیادہ ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے یہ وہی عمل ہو جس میں روح جسم سے نکلتی ہے۔


مزید برآں ڈاکٹر ہیمروف کا خیال تھا کہ شعور (Consciousness) ایک کم توانائی اور گہرائی سے سرایت کرنے والا عمل ہے جو دماغی خلیوں کے اندر ہوتا ہے، ممکنہ طور پر کوانٹم سطح پر۔ یہ خیال، جسے کوانٹم دماغی مفروضہ کہا جاتا ہے، تجویز کرتا ہے کہ ہماری آگاہی دماغی خلیات کے درمیان چھوٹی سرگرمیوں سے چل سکتی ہے جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے۔